فیصلہ کرے کہ وہ کس کے ساتھ ہے‘
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان کے لیے بنیادی فیصلے کا وقت آ گیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کابل میں بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان نے مقامی طالبان کے خلاف جرات مندانہ اقدامات کیے ہیں اور محض دس سال میں تیس ہزار شہریوں کی جانیں دی ہیں جو بہت بڑی قربانی ہے۔
’لیکن ہمارے خیال میں وہ مزید اقدامات کر سکتے ہیں اور مزید اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ اس کے لیے ہم بڑے سنجیدہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی صلاحیت کیا ہے اور کیا کرنے پر راضی ہیں تاکہ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی غلط فہمی نہ رہے۔‘
ایک سوال کہ کیا امریکہ پاکستانیوں سے کہیں گی کہ وہ اس بات کو واضح کرے کہ آیا وہ امریکہ کے ساتھ ہے یا مخالفت میں ہے یا کس کی طرف ہے، امریکی وزیر خارجہ نے کہا ’ ہم پاکستان کو سرعام کہیں گے کہ وہ مصالحتی عمل اور امن مذاکرات کی حمایت کرے۔‘
"ہمیں بیک وقت لڑنا ہے، مذاکرات اور تعمیرِ نو کرنی ہے اور ان تینوں صورتوں میں پاکستان نے ایک کردار ادا کرنا ہے۔ وہ مددگار ہو سکتے ہیں، غیر جانبدار یا پھر نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں"
ہلری کلنٹن
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے مزید کہا ’ہمیں بیک وقت لڑنا ہے، مذاکرات اور تعمیرِ نو کرنی ہے ۔ ان تینوں عمل میں پاکستان کا کردار ہے۔ یا تو وہ مددگار ہو سکتے ہیں، غیر جانبدار رہ سکتے ہیں یا پھر نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ ان کو اس بات پر قائل کر لیں گے کہ وہ ہماری کوششوں میں مدد گار ثابت ہوں۔‘
ایک سوال کہ پاکستان کے اپنے مفادات ہیں اور کیا اسے ان کے تحفظ کا حق نہیں تو اس پر امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان جوا کھیل رہا ہے حالانکہ اس کے پاس بہتر مواقع بھی موجود ہیں جن سے پاکستانی حکومت اور عوام دونوں کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وہ ایک خودمختار قوم ہیں اور اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں لیکن ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم محفوظ پناہ گاہوں کو برادشت نہیں کریں گے اور نہ یہ ہمارے مفاد میں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اب یہ ضروری ہے کہ لوگ امن کے ذریعے اس سارے مسئلے کا حل تلاش کریں، اور طالبان، دوسرے گروہ مذاکرات کے ذریعے بات کرنے پر آمادہ ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور جو نہیں ہیں ان کے لیے یہ پیغام ہے کہ ان کو پکڑ کر مار دیا جائے اور یہ ان پر منحصر ہے اور ہم ایسا ہی دیکھ رہے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment